حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے امام پنجم حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے یوم ولادت باسعادت پر جاری اپنے پیغام میں ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے ان کی شخصیت پر روشنی ڈالی اور کہا: تخصصی انداز سے شاگردوں کی تربیت کی سوچ کے بانی کا نام امام محمد باقر علیہ السلام ہے۔ جس کے ذریعہ آپ علیہ السلام نے دین اسلام کی شناخت و ترویج کا بیڑا اٹھایا اور سینکڑوں کی تعداد میں شاگردان تیار کئے۔ چنانچہ اس دور کے دیگر مذاہب کے بھی بڑے بڑے علماء یہ کہتے دکھائی دیئے کہ ''جو بھی محمد باقر تعلیم دے وہ حق اور صحیح ہے''۔
انہوں نے مزید کہا: امام جعفر صادق علیہ السلام کو جو پند و نصائح عطا فرمائے وہ بھی تاریخ کا ایک گرانقدر سرمایہ اور خزانہ ہیں۔ ایک موقع پر فرمایا کہ ''اے جعفر، خالق کائنات نے ہم اولاد پیغمبر (ص) کو علم کے لئے چن لیا ہے۔ جو علم ہمارے خاندان کی میراث ہے۔ اس علم کو امانت سمجھ کر انسانوں تک پہنچانا۔ صدیوں تک انسان یہ جان لے کہ اس کی خلقت کا سبب کیا ہے؟''۔
علامہ ساجد نقوی نے کہا: آپ علیہ السلام کی مسلسل اور پیہم جدوجہد رہتی دنیا تک کی انسانیت کی رشد و ہدایت کا سامان فراہم کرتی رہے گی۔ ائمہ علیہم السلام کی زندگی اخروی امور کی طرف متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ دنیوی امور کو بھی رضائے پروردگار کیلئے انجام دینے کی ترغیب بھی دیتی ہے۔
انہوں نے کہا: بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ تلاش معاش جو بہترین زندگی کیلئے جدوجہد کی علامت ہے اچھی بات نہیں جبکہ امام باقر علیہ السلام کی حیات طیبہ میں کسب حلال کے واقعات ملتے ہیں۔ محمد بن مکدر نقل کرتے ہیں کہ میں نے ایک دن امام علیہ السلام کو اپنے بھاری بدن کے ساتھ دو سیاہ فام غلاموں کے ہمراہ کام میں مشغول دیکھا۔ دل میں سوچا قریش کا ایک بزرگ اس حالت میں حصولِ دنیا کی کوشش میں مشغول ہے۔ میں نے امام علیہ السلام سے عرض کی: آپ کو اگر اس حالت میں موت آجائے تو کیا کریں گے؟ فرمایا: اگر اسی حالت میں میری موت آجائے تو میں دنیا سے اطاعت الہٰی کی حالت میں رخصت ہوں گا۔ میں کام کر کے اپنے اہل و عیال کو تمہارا اور دوسرے لوگوں کا محتاج بننے سے محفوظ رکھتا ہوں۔ (اصول کافی جلد 5 صفحہ 73)۔
قائد ملت جعفریہ نے کہا: ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے اعلی و ارفع مشن اور پاکیزہ اہداف و مقاصد میں کاملاً یکسوئی پائی جاتی تھی البتہ ان مقاصد کے حصول کے راستے اپنے اپنے دور کے تقاضوں کے لحاظ سے مختلف تھے۔ کسی امام نے راہ صلح، کسی نے قیام، کسی نے ثورہ الدموع و راہ دعا تو کسی نے مسندِ علم پر بیٹھ کر علوم و فنون کو شگافتہ کر کے "باقر العلوم" کے لقب کو اپنے ساتھ خاص کیا۔
انہوں نے مزید کہا: امام محمد باقر علیہ السلام کی منفرد فضیلت یہ بھی ہے کہ سلسلۂ امامت میں وہ "نجیب الطرفین" امام ہیں۔ جن کے والد بھی امام، نانا بھی امام، دادا بھی امام اور بیٹا بھی امام ہیں۔ اسی طرح وہ واقعہ کربلا کے چشم دید گواہ بھی بنے۔
علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابی حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری کو فرمایا کہ "تم میرے پانچویں جانشین کا دیدار کرو گے۔ جس کا نام میرے نام پہ ہو گا اور وہ علوم کو شگافتہ کرے گا، اس کو میرا سلام کہنا"۔ اسی طرح حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے اخلاق و کردار کے ذریعہ اپنی پاکیزہ جد امجد کے حقیقی وارث ہونے کا بھی ثبوت فراہم کیا۔
انہوں نے آخر میں کہا: انحرافی گروہوں کے خلاف جہدِ مسلسل اور اپنے اصولوں پر ٹھوس اور دو ٹوک مؤقف امام محمد باقر علیہ السلام کا خاصا تھا۔ چنانچہ اس راستے میں وہ مشکلات و مصائب کی پرواہ کئے بغیر پیغامِ حق بلند کرتے رہے۔









آپ کا تبصرہ